Allama iqbal poetry


ايک آرزو
 
دنيا کي محفلوں سے اکتا گيا ہوں يا رب
کيا  

لطف انجمن کا جب دل ہي بجھ گيا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں ، دل ڈھونڈتا ہے ميرا
ايسا سکوت جس پر تقرير بھي فدا ہو
مرتا ہوں خامشي پر ، يہ آرزو ہے ميري
دامن ميں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں ، عزلت ميں دن گزاروں
دنيا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گيا ہو
لذت سرود کي ہو چڑيوں کے چہچہوں ميں
چشمے کي شورشوں ميں باجا سا بج رہا ہو
گل کي کلي چٹک کر پيغام دے کسي کا
ساغر ذرا سا گويا مجھ کو جہاں نما ہو
ہو ہاتھ کا سرھانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت ، خلوت ميں وہ ادا ہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے ميري بلبل
ننھے سے دل ميں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندي کا صاف پاني تصوير لے رہا ہو
ہو دل فريب ايسا کہسار کا نظارہ
پاني بھي موج بن کر اٹھ اٹھ کے ديکھتا ہو
آغوش ميں زميں کي سويا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑيوں ميں پاني چمک رہا ہو
پاني کو چھو رہي ہو جھک جھک کے گل کي ٹہني
جيسے حسين کوئي آئينہ ديکھتا ہو
مہندي لگائے سورج جب شام کي دلھن کو
سرخي ليے سنہري ہر پھول کي قبا ہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائيں تھک کے جس دم
اميد ان کي ميرا ٹوٹا ہوا ديا ہو
بجلي چمک کے ان کو کٹيا مري دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کي کوئل ، وہ صبح کي مؤذن
ميں اس کا ہم نوا ہوں ، وہ ميري ہم نوا ہو
کانوں پہ ہو نہ ميرے دير وحرم کا احساں
روزن ہي جھونپڑي کا مجھ کو سحر نما ہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو ، نالہ مري دعا ہو
اس خامشي ميں جائيں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو ميري صدا درا ہو
ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہيں ، شايد انھيں جگا دے
درد عشق
 
اے درد عشق! ہے گہر آب دار تو
نامحرموں ميں ديکھ نہ ہو آشکار تو
پنہاں تہ نقاب تري جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفل نو کي نگاہ ہے
آئي نئي ہوا چمن ہست و بود ميں
اے درد عشق! اب نہيں لذت نمود ميں
ہاں خود نمائيوں کي تجھے جستجو نہ ہو
منت پذير نالہء بلبل کا تو نہ ہو! خالي شراب عشق سے لالے کا جام ہو
پاني کي بوند گريہء شبنم کا نام ہو
پنہاں درون سينہ کہيں راز ہو ترا
اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا
گويا زبان شاعر رنگيں بياں نہ ہو
آواز نے ميں شکوہ فرقت نہاں نہ ہو
يہ دور نکتہ چيں ہے ، کہيں چھپ کے بيٹھ رہ
جس دل ميں تو مکيں ہے، وہيں چھپ کے بيٹھ رہ
غافل ہے تجھ سے حيرت علم آفريدہ ديکھ! جويا نہيں تري نگہ نارسيدہ ديکھ
رہنے دے جستجو ميں خيال بلند کو
حيرت ميں چھوڑ ديدہء حکمت پسند کو
جس کي بہار تو ہو يہ ايسا چمن نہيں
قابل تري نمود کے يہ انجمن نہيں
يہ انجمن ہے کشتہء نظارہء مجاز
مقصد تري نگاہ کا خلوت سرائے راز
ہر دل مے خيال کي مستي سے چور ہے
کچھ اور آجکل کے کليموں کا طور ہے
 

پيا م صبح
(
ماخوذ از لانگ فيلو(

اجالا جب ہوا رخصت جبين شب کي افشاں کا
نسيم زندگي پيغام لائي صبح خنداں کا
جگايا بلبل رنگيں نوا کو آشيانے ميں
کنارے کھيت کے شانہ ہلايا اس نے دہقاں کا
طلسم ظلمت شب سورہء والنور سے توڑا
اندھيرے ميں اڑايا تاج زر شمع شبستاں کا
پڑھا خوابيدگان دير پر افسون بيداري
برہمن کو ديا پيغام خورشيد درخشاں کا
ہوئي بام حرم پر آ کے يوں گويا مؤذن سے
نہيں کھٹکا ترے دل ميں نمود مہر تاباں کا؟
پکاري اس طرح ديوار گلشن پر کھڑے ہو کر
چٹک او غنچہ گل! تو مؤذن ہے گلستاں کا
ديا يہ حکم صحرا ميں چلو اے قافلے والو! چمکنے کو ہے جگنو بن کے ہر ذرہ بياباں کا
سوئے گور غريباں جب گئي زندوں کي بستي سے
تو يوں بولي نظارا ديکھ کر شہر خموشاں کا
ابھي آرام سے ليٹے رہو ، ميں پھر بھي آئوں گي
سلادوں گي جہاں کو خواب سے تم کو جگائوں گي  


زندگي انساں کي اک دم کے سوا کچھ بھي نہيں
 
زندگي انساں کي اک دم کے سوا کچھ بھي نہيں
دم ہوا کي موج ہے ، رم کے سوا کچھ بھي نہيں
گل تبسم کہہ رہا تھا زندگاني کو مگر
شمع بولي ، گريہء غم کے سوا کچھ بھي نہيں
راز ہستي راز ہے جب تک کوئي محرم نہ ہو
کھل گيا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھي نہيں
زائران کعبہ سے اقبال يہ پوچھے کوئي
کيا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھي نہيں!
 

No comments:

Post a Comment